دو اشک بہا دیتا کوئی ایسا نا چارہ گر نکل جس دل کو سنایا درد وہی دل پتھر نکلا برسوں کی دعائوں کا لو آج یہ اثر نکلا نکاب قاتل کے پیچھے چہرہ دلبر نکلا بس اک پل میں کھل گیا بھم شوخی گفتار صنم ان کی آنکھوں میں جو جھانکا تو سمندر نکلا رورو کے مٹادی جس کے حجر میں زندگی وہی حالت زار سے اپنی بے خبر نکلا بے ساختہ ہنسی آگئی اپنی سادہ دلی پہ ان کے سنگوں کا نشانہ جب میرا ہی سر نکلا گھبرا کر دیکھنے لگے اپنے دامن کو سربر خم وہ میری آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ جب خون جگر نکلا لہو سے رنگ گیا ظالم میرے کفن کو تیرے ہاتھ سے گرنے والا ہر پھول پتھر نکلا از قلم شبانہ ایوبی